¡Sorpréndeme!

Imam e Husein rz HD | واقعہ کربلا اوریزید کا کردار, تاریخی حقائق،سانحہ کربلا کا پس، منظرضرور سنیں

2016-10-11 6 Dailymotion

Imam e Husein rz HD | واقعہ کربلا اوریزید کا کردار, تاریخی حقائق،سانحہ کربلا کا پس، منظرضرور سنیں

واقعہ کربلا ہماری تاریخ کا المناک ترین باب ہے ۔نبی مہربانﷺ کی رحلت کے نصف صدی بعد آپ کے محبوب نواسے کو ان کے پورے اہل و عیال کو اس بے دردی کے ساتھ تہ تیغ کر دینا اموی حکومت کے دامن پر سیاہ ترین دھبہ ہے اس کا سبب محض یہ تھا کہ اموی حکمران یزید کی حکومت باقی نہ رہ سکتی تھی اگر امام حسین زندہ رہتے ۔یزید اور اس کے لاﺅ لشکر نے جس سنگدلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا وہ ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے ۔ان واقعات کا علمی تجزیہ تو ہونا چاہیے مگر افراط و تفریط کا شکار ہو کر تاریخ کو اپنی من مانی تعبیر کے سانچے میں نہیں ڈھالنا چاہیے۔مستند واقعات کی کسوٹی پر تمام کرداروں کو پرکھاجائے تو ہر ایک کا درست تعارف سامنے آجاتا ہے۔
یزید تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جس پر سبّ و شتم کی بوچھاڑ ہوتی ہے مگر سب و شتم نہ تو درست طرزِ عمل ہے، نہ اس سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ دوسری جانب ردعمل کے طور پر کچھ لوگ یزید کی پارسائی اور مناقب بیان کرنے کا محاذ سنبھال لیتے ہیں۔ یوں دونوں جانب کی کھینچا تانی نے حقائق کو کافی حد تک مسخ کیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے نہایت معتدل اور مبنی برحق موقف بیان فرماتے ہوئے کہا کہ یزید کے بارے میں تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ اس کی تحسین و تعظیم کرتا اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ دوسرا گروہ اس پر سبّ و شتم اور لعنت بھیجتا اور اس کی تفکیر ضروری سمجھتا ہے۔ تیسرا موقف ہمارا ہے کہ ہم نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس کی تعظیم و تحسین اور نہ ہی اس کو گالیاں دیتے ہیں۔ (مفہوم از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ) یزید میں بلاشبہ کئی کبائر اور بڑی بڑی برائیاں تھیں اور خلافت کے اعلیٰ منصب کا تو وہ کسی لحاظ سے بھی اہل نہیں تھا۔ اس کے خلاف صحابہ کرامؓ کا موقف مبنی برحق تھا۔ یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ اس کا تختہ کیوں نہ الٹا جاسکا۔ اس کے تخت پر براجمان ہونے کو قطعاً دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ حق پر تھا۔اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر فرعون اور نمرود جیسے تمام حکمرانوں کو بھی برحق ماننا پڑے گا جو کہ سرا سر خلافِ حقیقت ہے ۔
اسلام کے نظامِ خلافت کو جاننے والے صحابہ کرام بخوبی سمجھتے تھے کہ یزید اپنے کردار کے لحاظ سے خلافت کی عظیم ذمہ داری کے لیے بالکل نااہل ہے۔ ان حالات میں اہلِ حجاز کے مشورے سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کی اور یہاں کے تمام لوگوں نے ان کے ہاتھ پر برضا و رغبت بیعت کی۔ دوسری طرف اہلِ کوفہ نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھ کر حضرت حسین بن علیؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، یہ سب واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ابن اثیر ج۲، ص ۲۵۰، تاریخ طبری ج۴، ص ۲۲۵، الکامل لابن الاثیر، ج۲، ص ۵۰-۴۹ پر وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ یزید حضرت معاویہؓ کا بیٹا ہونے کے علاوہ کسی لحاظ سے بھی اس قابل نہیں تھا کہ کوئی فرد یہ سوچتا کہ زمامِ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
صائب رائے
حضرت احنف بن قیسؓ کے بارے میں ابن الاثیر نے صراحت سے لکھا ہے کہ اگرچہ وہ حضرت معاویہؓ کے قریبی ساتھی تھے لیکن ان کی اس سوچ سے کہ وہ اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کریں، انھیں سخت اختلاف تھا۔ جب حضرت معاویہؓ نے ان سے اس موضوع پر رائے لینا چاہی تو انھوں نے صاف لفظوں میںفرمایا کہ آپؓ کے سامنے سچی بات کہتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں لیکن خداخوفی کا تقاضا ہے کہ بات سچی کی جائے۔ امیر المومنین! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یزید کی راتیں کہاں بسر ہوتی ہیں اور دن کیسے گزرتے ہیں۔ آپؓ کے سامنے اس کا ظاہر و باطن سب عیاں ہے۔ پھر آپ اسے کس طرح اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟ ۔ کبار صحابہ کی مخالفت کے باوجود حضرت معاویہؓ نے اپنے نااہل بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ البتہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انھوں نے یزید کو کئی مرتبہ نصیحت کی کہ اگر کبھی حسین بن علیؓ سے معاملہ پیش آجائے تو نرمی اور درگزر کا رویہ اپنانا۔ انھوں نے سیدنا حسینؓ کے مناقب بھی بیان کیے مگر مناقب بیان کرنے سے کیا ہوتا ہے جبکہ فیصلہ نااہل کے حق میں صادر ہوجائے۔
سیدنا حسینؓ اور اہل کوفہ
یزید کی خلافت پورے عالمِ اسلام میں قبول نہیں کی گئی تھی۔ اہل عراق، حجاز، مصر اور دیگر بہت سے علاقوں میں یزید کی مخالفت کی جارہی تھی۔ اہلِ کوفہ نے حضرت امام حسینؓ کو نہ صرف خطوط لکھے بلکہ کئی وفود بھی ان کی خدمت میں بھیجے۔ ان لوگوں کے مسلسل اصرار اور پُر زور مطالبے پر آپؓ نے عراق کی طرف رختِ سفر باندھا۔ اس دوران مکہ، مدینہ اور پورے حجاز میں موجود صحابہ کرامؓ یزید کی ناجائز حکومت اور سیدنا حسینؓ کے سفرِ کوفہ پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اکثر صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ امام حسینؓ کو حجاز ہی میں مقیم رہنا چاہیے۔
اہلِ کوفہ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت حسینؓ کے تایازاد بھائی اور بہنوئی حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ کی جچی تلی رائے یہ تھی کہ وہ قابلِ اعتماد لوگ نہیں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسینؓ نے اس کے باوجود کوفہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جہاں تک انسانی تدبیر، حکمت اور دور اندیشی کا تعلق ہوسکتا ہے، حضرت حسینؓ نے بلاشبہ اس کا اہتمام کیا تھا۔ انھوں نے خود کوفہ جانے سے قبل اپنے معتمد ساتھی اور تایا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا۔ انھوں نے کوفہ جاکر حالات کا جائزہ لیا اور مفصل خط میں موافق اور سازگار حالات کی رپورٹ دی۔ بعد میں اچانک جو حالات نے پلٹا کھایا تھا، اس کی اطلاع سیدنا حسینؓ تک بروقت نہیں پہنچ پائی تھی۔

اسلامی تاریخ،سچی کہانیاں،سیاست و قیادت انکشافات بھرے کالم سنیں
https://www.youtube.com/channel/UC5OSub7hoTUYy8XzYb-a1Og